چاندنی رات کا سایہ




                                                                                             

                                                        پہلا حصہ: بنگلے کی طرف سفر

چاندنی رات اپنے جوبن پر تھی۔ پہاڑیوں کے درمیان ایک سنسان راستہ بل کھاتا ہوا ایک پرانے بنگلے کی طرف جاتا تھا۔ اس بنگلے کے اردگرد درختوں کا گھنا جنگل تھا، جو ہوا کے ساتھ سرسراہٹ کی ایسی آوازیں پیدا کرتا تھا جیسے کوئی کسی کے کان میں سرگوشی کر رہا ہو۔

انیس سالہ لڑکی "عالیہ" ایک یونیورسٹی کی طالبہ تھی، جو اپنی چھٹیاں گزارنے کے لیے اس بنگلے میں آئی تھی۔ یہ بنگلہ اس کے نانا کا تھا، جو برسوں پہلے یہاں تنہا رہا کرتے تھے اور پراسرار حالات میں فوت ہو گئے تھے۔ عالیہ کو بچپن سے سننے کو ملتا رہا کہ یہ بنگلہ "منحوس" ہے، لیکن اس نے کبھی یقین نہیں کیا۔

دوسرا حصہ: بنگلے کا پہلا رات

جب عالیہ بنگلے پہنچی تو رات ہو چکی تھی۔ دروازہ زنگ آلود تھا، لیکن چابی سے کھل گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی مٹی اور باسی لکڑی کی بو نے اس کا استقبال کیا۔ ہر طرف پرانے فرنیچر، خالی تصویری فریمز، اور ایک ٹوٹا ہوا آئینہ تھا۔

عالیہ نے کمروں کی صفائی کی اور ایک کمرہ منتخب کر کے سونے کی تیاری کی۔ جیسے ہی وہ بستر پر لیٹی، دور جنگل سے گیدڑوں کے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ آوازیں کچھ ایسی تھیں جیسے کوئی غم زدہ ماں اپنے بچے کو پکار رہی ہو۔

لیکن ایک بات عجیب تھی...
یہ آوازیں آہستہ آہستہ بنگلے کے قریب آنے لگیں، جیسے کوئی قدموں کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ رہا ہو۔

تیسرا حصہ: سایہ اور سرگوشی

اگلی صبح عالیہ نے بنگلے کے عقبی حصے میں ایک پرانی کتاب دیکھی، جس پر سیاہ رنگ سے لکھا تھا:
"جنہیں چاندنی پسند ہے، وہ اندھیرے سے ڈرتے ہیں۔"

اس نے کتاب کھولی تو صفحے خودبخود پلٹنے لگے۔ ہر صفحے پر ایک ہی جملہ تھا:
"وہ واپس آ رہے ہیں۔"

اسی رات بنگلے کے باہر کچھ عجیب سا شور سنائی دیا۔ عالیہ کھڑکی کے قریب گئی تو دیکھا کہ بنگلے کے آس پاس تقریباً پانچ یا چھ گیدڑ چکر لگا رہے تھے۔ ان کی آنکھیں لال تھیں، اور وہ عام جانوروں کی طرح نہیں لگ رہے تھے۔ ان کی حرکات انسانی جیسی تھیں، جیسے وہ عالیہ کو پہچان چکے ہوں۔

چوتھا حصہ: گیدڑوں کا پیغام

اگلی رات ایک گیدڑ بنگلے کے اندر آ گیا۔ عالیہ چیخی، لیکن گیدڑ بھاگا نہیں... بلکہ دروازے کے پاس کھڑا ہو کر گہری آواز میں بولا:
"عالیہ... ہمیں پہچانتی ہو؟ ہم تمہارے نانا کی سزا ہیں۔"

عالیہ کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، اور وہ بے ہوش ہو گئی۔

صبح ہوش آیا تو بنگلے کے فرش پر گہرے پنجوں کے نشان تھے۔ ان کے درمیان خون کے دھبے تھے، اور دیوار پر خون سے لکھا تھا:
"چودہ راتیں... پھر فیصلہ ہوگا!"

پانچواں حصہ: نانا کا راز

عالیہ نے نانا کی پرانی ڈائری نکالی۔ اس میں لکھا تھا کہ نانا نے جوانی میں جنگل کے ایک جادوگر کو دھوکہ دیا تھا، اور اس جادوگر نے بددعا دی تھی کہ ہر چاندنی رات، اس کی نسل کو گیدڑ نما سایے ستائیں گے۔

عالیہ وہی آخری وارث تھی، اور اب وہی ان سایوں کا نشانہ تھی۔

چھٹا حصہ: آخری رات

چودھویں رات چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ بنگلے کے گرد گیدڑوں کی تعداد بڑھ چکی تھی۔ عالیہ نے نانا کی ڈائری میں درج ایک تعویذ کو پڑھ کر خود کو کمرے میں قید کر لیا۔ لیکن ایک گیدڑ کھڑکی سے اندر کودا۔

اس کی شکل انسان جیسی ہو چکی تھی۔ اس نے کہا:
"اگر تم چاہو تو یہ بددعا ختم ہو سکتی ہے... مگر قیمت ادا کرنی ہو گی!"

عالیہ نے پوچھا، "کیا قیمت؟"

گیدڑ نے جواب دیا:
"تمہیں یہاں ہمیشہ کے لیے رہنا ہو گا... اپنی نسل بڑھانے کے لیے... تاکہ ہمارا قبیلہ مکمل ہو سکے!"

ساتواں حصہ: خوفناک انجام

اگلی صبح بنگلہ سنسان تھا۔ عالیہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ صرف کھڑکی کے باہر ایک نئی آواز سنائی دی:

"آآآوووووو۔۔۔۔۔۔"

یہ آواز کسی گیدڑ کی تھی، مگر اس میں ایک عورت کی چیخ شامل تھی۔

لوگ آج بھی کہتے ہیں، چاندنی راتوں میں اگر کوئی اس بنگلے کے قریب جائے... تو ایک لڑکی کی آنکھیں جھانکتی ہیں، اور گیدڑوں کے بیچ کوئی آدھی عورت، آدھا جانور سایہ، نئے شکار کی تلاش میں ہوتا ہے۔


ماں کا راز

 



📘 ماں کا راز

✍️ تحریر: احمد موز صدیقی



باب 6: حافظ نعمان

نایاب خوفزدہ ہو کر واپس دربار آئی اور حافظ نعمان سے سب کچھ بتایا۔ وہ خاموش رہے، پھر آہستہ سے بولے:
"تم صرف بیٹی نہیں… تم ایک دروازہ ہو۔ جنّات اور انسان کے بیچ کا دروازہ۔"

نایاب کا جسم لرز گیا۔

حافظ صاحب نے خاص روحانی تربیت شروع کی۔ نایاب کو وضائف دیے گئے، دم، مراقبہ، قرآن فہمی، اور دعائیں۔ ہر رات وہ بنگلے کے خواب دیکھتی، جہاں سائے اور چہرے اسے پکار رہے ہوتے۔

ایک رات، نایاب کی آنکھوں سے خون بہنے لگا — حافظ صاحب نے دم کیا، اور پہلی بار جنّنی کی آواز سنی گئی:
"ہمیں روک نہیں سکتے… اقبال اب زندہ ہے… تم اس کی اولاد نہیں، شکل ہو!"


باب 7: خوابوں کی دنیا

نایاب مکمل روحانی بیداری کے مقام پر پہنچی، جب وہ اچانک تین دروازوں والے خواب میں داخل ہوئی۔

  • پہلا دروازہ — ماں، جوان رخسانہ، جو اقبال کے ساتھ کالے عمل میں مصروف ہے۔

  • دوسرا دروازہ — اقبال ایک عظیم جنّ کے سامنے جھکا ہوا، قربانی کا وعدہ کرتے ہوئے۔

  • تیسرا دروازہ — نایاب، جو سفید لباس میں کھڑی ہے، اور اُس کے گرد سیاہ لپیٹتے ہاتھ ہیں۔

ایک سایہ کہتا ہے:
"قبول کر اپنی اصل، یا مٹ جا۔"

نایاب چیختی ہے:
"میں انسان ہوں! میں نور ہوں! میں قربانی نہیں، روشنی بنوں گی!"

دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ خواب ختم نہیں ہوتا، مگر نایاب کی آنکھ کھل جاتی ہے… بدل چکی ہے وہ۔


باب 8: آخری لڑائی

نایاب اب مکمل تیار تھی۔ اس نے سفید لباس پہنا، قرآن اپنے سینے سے لگایا، اور حافظ نعمان کے ساتھ بنگلے پہنچی۔

بنگلہ اب سانس لے رہا تھا — دیواریں جنبش میں، دروازے کھلے، اور زمین پر نقش تازہ ہو رہے تھے۔

اقبال کا سایہ نمودار ہوا:
"تو آئی ہے؟ وارث بننے؟ یا فنا ہونے؟"

نایاب نے دائرے کے بیچ قرآن رکھا، اور سورہ ابراہیم کی آیت پڑھی:

"وَقَدْ مَكَرُوا۟ مَكْرَهُمْ وَعِندَ ٱللَّهِ مَكْرُهُمْ ۖ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ ٱلْجِبَالُ"

اقبال کی روح تڑپنے لگی۔ جنّاتی سائے چیخنے لگے۔ بنگلہ جلنے لگا۔ نایاب نے چیخ کر کہا:
"میں تجھے ختم کرتی ہوں، اپنے لہو سے نہیں… اپنے ایمان سے!"

روشنی چھا گئی۔ سایہ ختم۔ بنگلہ راکھ۔


باب 9: نئی زندگی

نایاب دربار لوٹی، خاموش، مگر آزاد۔ رخسانہ جیل میں انتقال کر چکی تھی۔ اُس کی آخری تحریر:
"بیٹی، تو نے میرا گناہ دھو دیا۔ اللہ تیرا حافظ۔"

نایاب نے "نورِ نجات" کے نام سے ادارہ بنایا، جو اُن عورتوں اور بچوں کے لیے تھا جو ماضی کے سایوں کا شکار تھے۔


باب 10: اختتام — ماں کا راز

بنگلہ راکھ ہو چکا تھا، مگر اس کی دیواروں سے ایک پینٹنگ بچ گئی — رخسانہ کی تصویر… مگر اب اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔

نایاب نے آخری بار اُسے دیکھا، اور آہستہ سے کہا:
"امی، اب سب ختم ہو گیا۔"

ہوا میں ایک سرگوشی ابھری:
"نہیں بیٹی… اندھیرے کبھی ختم نہیں ہوتے، روشنی کو جیتنی پڑتی ہے… ہر بار۔"


✅ اختتام

(قبرستان کی خاموش چیخیں)

                                                                      (قبرستان کی خاموش چیخیں) 

(ایک طویل ہارر کہانی)

     

رات کے ساڑھے بارہ بجے تھے، آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور ہواؤں میں عجیب سی ٹھنڈک اور سنّاٹا تھا۔ لاہور کے نواح میں واقع پرانا "شاہ بیلا قبرستان" صدیوں پرانا تھا، جہاں لوگوں کا جانا دن کے وقت بھی پسندیدہ نہ تھا، اور رات کے وقت تو اس کا تصور ہی لرزا دینے والا تھا۔

مگر فہد ایک ضدی نوجوان تھا۔ اس کے دوستوں نے ایک چیلنج دیا کہ اگر وہ رات کے وقت قبرستان میں دو گھنٹے گزار لے، تو وہ سب اسے اپنا "ڈر کا بادشاہ" مان لیں گے۔ فہد ہنسا، اور کہا،
"ڈر تو کمزوروں کو لگتا ہے۔ میں نہیں ڈرتا کسی چیز سے!"

قبرستان کا دروازہ

رات ٹھیک ایک بجے، وہ ٹارچ اور موبائل لے کر قبرستان کے مرکزی آہنی دروازے سے اندر داخل ہوا۔ دروازہ زنگ آلود تھا، اور جیسے ہی اس نے دھکیلا، ایک کربناک چیخ جیسی آواز آئی۔ فہد نے طنزیہ انداز میں کہا:
"واہ، کیا ویلکم ہے!"

قبرستان میں داخل ہوتے ہی عجیب سا گھٹن کا احساس ہوا۔ درختوں کی شاخیں ایسے جھک رہی تھیں جیسے کسی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ پرانی قبریں، ٹوٹی ہوئی کتبے، اور کہیں کہیں جلی ہوئی موم بتیاں۔ ایک ہوا کا جھونکا آیا اور فہد کے ہاتھ سے ٹارچ گر گئی۔ جیسے ہی اس نے اٹھانے کے لیے جھکا، ایک سایہ اس کے پیچھے سے گزر گیا۔

"کون ہے؟" فہد نے زور سے پوچھا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔

پہلا نشان

فہد نے موبائل کی فلش آن کی، اور ایک پرانی قبر کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ اچانک موبائل ہلنے لگا، اور اس پر خود بخود ایک ویڈیو چلنے لگی۔ ویڈیو میں وہی قبر نظر آ رہی تھی، لیکن اس پر ایک عورت سفید کپڑوں میں بیٹھی ہوئی تھی، جو رو رہی تھی۔

فہد نے ہڑبڑا کر موبائل پھینک دیا۔ اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ "یہ کیا بکواس ہے؟" اس نے خود سے کہا۔

موت کا درخت

اب فہد وہاں سے بھاگنا چاہتا تھا، مگر قبرستان کا راستہ جیسے غائب ہو چکا تھا۔ وہ جدھر جاتا، ایک ہی جگہ آ جاتا۔ اسے لگا جیسے وہ کسی جال میں پھنس گیا ہے۔ اچانک ایک درخت کے نیچے اسے روشنی دکھائی دی۔ وہ بھاگ کر گیا، اور دیکھا کہ وہاں ایک پرانا لالٹین جل رہا ہے۔ اس کے قریب ایک بزرگ بیٹھے تھے جن کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

"بیٹا، یہاں کیوں آیا؟"
فہد نے تھرتھراتی آواز میں کہا، "دوستوں نے چیلنج دیا تھا۔"

بزرگ نے سر جھکا کر کہا، "یہ وہ جگہ ہے جہاں روحیں آرام کرتی ہیں، اور تم نے انہیں جگا دیا ہے۔ اب وہ تمہیں جانے نہیں دیں گی۔"

آخری لمحہ

فہد پیچھے ہٹنے لگا، مگر اس کے قدم زمین میں دھنسنے لگے۔ اس نے چلانا شروع کیا، مگر آواز جیسے حلق میں دب گئی ہو۔ وہ چیخا، مگر کوئی سننے والا نہ تھا۔ آخری بار جب اس نے پیچھے دیکھا، تو قبروں میں سے درجنوں سائے نکل کر اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔

صبح کے وقت، قبرستان کا دروازہ کھلا ملا۔ فہد کا موبائل دروازے کے قریب پڑا تھا، مگر فہد خود غائب تھا۔ صرف ایک پرانی قبر کے کتبے پر نیا نام کندہ کیا گیا تھا:
"فہد علی — وہ جو روحوں سے کھیلنے آیا، مگر خود ایک روح بن گیا۔"


کالا سایہ

                                                                                                                                                        کہانی کا عنوان: "کالا سایہ"

 


ایک گھنا اور سنسان جنگل تھا، جسے لوگ "کالا جنگل" کہتے تھے۔ اس جنگل کے بارے میں مشہور تھا کہ سورج ڈھلنے کے 

بعد وہاں جانا موت کو دعوت دینا ہے۔ لیکن فیصل، ایک نوجوان فوٹوگرافر، نے ان کہانیوں کو صرف دیہی لوگوں کا وہم سمجھ

۔ ایک دن وہ اپنے کیمرے کے ساتھ جنگل کی خوبصورتی قید کرنے نکلا۔ دوپہر تک سب کچھ نارمل تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، 

پتوں کی سرسراہٹ، اور دور سے بہتہوا نالہ۔ لیکن شام کے وقت اچانک خاموشی چھا گئی۔ فیصل نے محسوس کیا کہ جیسے 

کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہو۔ وہ مڑا، لیکن پیچھے کوئی نہ تھا۔ اچانک ایک بھیانک آواز سنائی دی… "گھر چلا جا… ابھی 

بھی وقت ہے۔" فیصل نے ڈرتے ہوئے اردگرد دیکھا، لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ اتنے میں، جھاڑیوں میں حرکت ہوئی، اور وہاں 

سے ایک کالا، دیو ہیکل وولف نمودار ہوا۔ اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ تھیں، اور دانت لمبے اور نوکیلے۔ فیصل نے 

بھاگنے کی کوشش کی، مگر اس کے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے ہوں۔ وولف آہستہ آہستہ اس کے قریب آیا، لیکن کچھ 

لمحوں بعد اچانک رک گیا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور غرا کر غائب ہو گیا… صرف اس کی سیاہ پرچھائیں درختوں پر 

باقی رہ گئی۔ فیصل بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔ جب وہ اگلی صبح جنگل کے کنارے پایا گیا، اس کی آنکھیں کھلی تھیں، 

مگر وہ بول نہیں سکتا تھا۔ صرف ایک بات بار بار دہراتا… 
                                                                             
                                                                                       وہ ابھی یہیں ہے وہ واپس آیے گا ضرور آے  گا ہے