(قبرستان کی خاموش چیخیں)

                                                                      (قبرستان کی خاموش چیخیں) 

(ایک طویل ہارر کہانی)

     

رات کے ساڑھے بارہ بجے تھے، آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور ہواؤں میں عجیب سی ٹھنڈک اور سنّاٹا تھا۔ لاہور کے نواح میں واقع پرانا "شاہ بیلا قبرستان" صدیوں پرانا تھا، جہاں لوگوں کا جانا دن کے وقت بھی پسندیدہ نہ تھا، اور رات کے وقت تو اس کا تصور ہی لرزا دینے والا تھا۔

مگر فہد ایک ضدی نوجوان تھا۔ اس کے دوستوں نے ایک چیلنج دیا کہ اگر وہ رات کے وقت قبرستان میں دو گھنٹے گزار لے، تو وہ سب اسے اپنا "ڈر کا بادشاہ" مان لیں گے۔ فہد ہنسا، اور کہا،
"ڈر تو کمزوروں کو لگتا ہے۔ میں نہیں ڈرتا کسی چیز سے!"

قبرستان کا دروازہ

رات ٹھیک ایک بجے، وہ ٹارچ اور موبائل لے کر قبرستان کے مرکزی آہنی دروازے سے اندر داخل ہوا۔ دروازہ زنگ آلود تھا، اور جیسے ہی اس نے دھکیلا، ایک کربناک چیخ جیسی آواز آئی۔ فہد نے طنزیہ انداز میں کہا:
"واہ، کیا ویلکم ہے!"

قبرستان میں داخل ہوتے ہی عجیب سا گھٹن کا احساس ہوا۔ درختوں کی شاخیں ایسے جھک رہی تھیں جیسے کسی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ پرانی قبریں، ٹوٹی ہوئی کتبے، اور کہیں کہیں جلی ہوئی موم بتیاں۔ ایک ہوا کا جھونکا آیا اور فہد کے ہاتھ سے ٹارچ گر گئی۔ جیسے ہی اس نے اٹھانے کے لیے جھکا، ایک سایہ اس کے پیچھے سے گزر گیا۔

"کون ہے؟" فہد نے زور سے پوچھا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔

پہلا نشان

فہد نے موبائل کی فلش آن کی، اور ایک پرانی قبر کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ اچانک موبائل ہلنے لگا، اور اس پر خود بخود ایک ویڈیو چلنے لگی۔ ویڈیو میں وہی قبر نظر آ رہی تھی، لیکن اس پر ایک عورت سفید کپڑوں میں بیٹھی ہوئی تھی، جو رو رہی تھی۔

فہد نے ہڑبڑا کر موبائل پھینک دیا۔ اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ "یہ کیا بکواس ہے؟" اس نے خود سے کہا۔

موت کا درخت

اب فہد وہاں سے بھاگنا چاہتا تھا، مگر قبرستان کا راستہ جیسے غائب ہو چکا تھا۔ وہ جدھر جاتا، ایک ہی جگہ آ جاتا۔ اسے لگا جیسے وہ کسی جال میں پھنس گیا ہے۔ اچانک ایک درخت کے نیچے اسے روشنی دکھائی دی۔ وہ بھاگ کر گیا، اور دیکھا کہ وہاں ایک پرانا لالٹین جل رہا ہے۔ اس کے قریب ایک بزرگ بیٹھے تھے جن کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

"بیٹا، یہاں کیوں آیا؟"
فہد نے تھرتھراتی آواز میں کہا، "دوستوں نے چیلنج دیا تھا۔"

بزرگ نے سر جھکا کر کہا، "یہ وہ جگہ ہے جہاں روحیں آرام کرتی ہیں، اور تم نے انہیں جگا دیا ہے۔ اب وہ تمہیں جانے نہیں دیں گی۔"

آخری لمحہ

فہد پیچھے ہٹنے لگا، مگر اس کے قدم زمین میں دھنسنے لگے۔ اس نے چلانا شروع کیا، مگر آواز جیسے حلق میں دب گئی ہو۔ وہ چیخا، مگر کوئی سننے والا نہ تھا۔ آخری بار جب اس نے پیچھے دیکھا، تو قبروں میں سے درجنوں سائے نکل کر اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔

صبح کے وقت، قبرستان کا دروازہ کھلا ملا۔ فہد کا موبائل دروازے کے قریب پڑا تھا، مگر فہد خود غائب تھا۔ صرف ایک پرانی قبر کے کتبے پر نیا نام کندہ کیا گیا تھا:
"فہد علی — وہ جو روحوں سے کھیلنے آیا، مگر خود ایک روح بن گیا۔"


کالا سایہ

                                                                                                                                                        کہانی کا عنوان: "کالا سایہ"

 


ایک گھنا اور سنسان جنگل تھا، جسے لوگ "کالا جنگل" کہتے تھے۔ اس جنگل کے بارے میں مشہور تھا کہ سورج ڈھلنے کے 

بعد وہاں جانا موت کو دعوت دینا ہے۔ لیکن فیصل، ایک نوجوان فوٹوگرافر، نے ان کہانیوں کو صرف دیہی لوگوں کا وہم سمجھ

۔ ایک دن وہ اپنے کیمرے کے ساتھ جنگل کی خوبصورتی قید کرنے نکلا۔ دوپہر تک سب کچھ نارمل تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، 

پتوں کی سرسراہٹ، اور دور سے بہتہوا نالہ۔ لیکن شام کے وقت اچانک خاموشی چھا گئی۔ فیصل نے محسوس کیا کہ جیسے 

کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہو۔ وہ مڑا، لیکن پیچھے کوئی نہ تھا۔ اچانک ایک بھیانک آواز سنائی دی… "گھر چلا جا… ابھی 

بھی وقت ہے۔" فیصل نے ڈرتے ہوئے اردگرد دیکھا، لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ اتنے میں، جھاڑیوں میں حرکت ہوئی، اور وہاں 

سے ایک کالا، دیو ہیکل وولف نمودار ہوا۔ اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ تھیں، اور دانت لمبے اور نوکیلے۔ فیصل نے 

بھاگنے کی کوشش کی، مگر اس کے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے ہوں۔ وولف آہستہ آہستہ اس کے قریب آیا، لیکن کچھ 

لمحوں بعد اچانک رک گیا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور غرا کر غائب ہو گیا… صرف اس کی سیاہ پرچھائیں درختوں پر 

باقی رہ گئی۔ فیصل بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔ جب وہ اگلی صبح جنگل کے کنارے پایا گیا، اس کی آنکھیں کھلی تھیں، 

مگر وہ بول نہیں سکتا تھا۔ صرف ایک بات بار بار دہراتا… 
                                                                             
                                                                                       وہ ابھی یہیں ہے وہ واپس آیے گا ضرور آے  گا ہے